ستم گری بھی مری کشتگاں بھی میرے تھے
بیان کرتے ہوئے نوحہ خواں بھی میرے تھے
فضا میں اڑتے پرندوں کی ڈار میری تھی
نشانے میرے تھے تیر و کماں بھی میرے تھے
وہ ہجو میری تھی وہ سب قصیدے میرے تھے
تمہارے بارے میں وہم و گماں بھی میرے تھے
صف عزیزاں صف دشمناں بھی میری تھی
وہ جنگ میری تھی سود و زیاں بھی میرے تھے
سفر بھی میرا تھا اور گرد باد میرے تھے
وہ عشق میرا تھا اور امتحاں بھی میرے تھے
لہو بھی میرا تھا اور آستیں بھی میری تھی
وہ تیغ میری تھی اس پر نشاں بھی میرے تھے
ہزیمتیں بھی مری مخبری بھی میری تھی
ہلاک ہوتے ہوئے پاسباں بھی میرے تھے

غزل
ستم گری بھی مری کشتگاں بھی میرے تھے
زبیر رضوی