ستم سہنے کی تیاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
محبت میں وفاداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
بہت ہم خود غرض تھے جب محبت کی تو یہ جانا
کہ اپنی جان سے پیاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
ضروری تو نہیں ہر بات ہونٹھوں سے کہی جائے
نگاہوں کی اداکاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
اگر آنکھوں سے بہہ جائیں تو ہو جاتا ہے دل ہلکا
بدن میں اشک سے بھاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
تقاضے اس سے ہم ہی کیوں کریں ہر روز ملنے کے
ہماری اپنی خودداری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
ہمارے خط جہاں پڑھتے ہو یوں ہی ڈال دیتے ہو
ارے کمرے میں الماری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
طرف داری تمہیں آتی ہے اپنے گھر کے لوگوں کی
میاں میری طرف داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
عیادت کے بہانے میرے گھر وہ روز آتے ہیں
محبت والوں بیماری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
غزل
ستم سہنے کی تیاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے
انو بھو گپتا