ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر
پکارتی ہے بلندی کہ زندگی ہے ادھر
چمن میں ہم نہ رہیں گے ترے پلٹنے تک
ٹھہر ٹھہر ذرا جاتی ہوئی بہار ٹھہر
کوئی فریب نہ کھائے سفید پوشی سے
نہ جانے کتنے ستارے نگل گئی ہے سحر
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز
مجھے پرکھ مری شہرت کا انتظار نہ کر
حفیظؔ کتنے ہی چہرے اداس ہونے لگے
ہمارے فن کو سراہیں بہت نہ اہل نظر
غزل
ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر
حفیظ میرٹھی