EN हिंदी
ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر | شیح شیری
sitam ki tegh ye kahti hai sar na uncha kar

غزل

ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر

حفیظ میرٹھی

;

ستم کی تیغ یہ کہتی ہے سر نہ اونچا کر
پکارتی ہے بلندی کہ زندگی ہے ادھر

چمن میں ہم نہ رہیں گے ترے پلٹنے تک
ٹھہر ٹھہر ذرا جاتی ہوئی بہار ٹھہر

کوئی فریب نہ کھائے سفید پوشی سے
نہ جانے کتنے ستارے نگل گئی ہے سحر

تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز
مجھے پرکھ مری شہرت کا انتظار نہ کر

حفیظؔ کتنے ہی چہرے اداس ہونے لگے
ہمارے فن کو سراہیں بہت نہ اہل نظر