EN हिंदी
ستم کی انتہا پر چل رہی ہے | شیح شیری
sitam ki intiha par chal rahi hai

غزل

ستم کی انتہا پر چل رہی ہے

خورشید اکبر

;

ستم کی انتہا پر چل رہی ہے
یہ دنیا کس خدا پر چل رہی ہے

دلوں پر قہر کا موسم ہے کیسا
مری بستی دعا پر چل رہی ہے

لہو سے کھیلتے ہیں سب فرشتے
سیاست فاتحہ پر چل رہی ہے

زباں کاٹی گئی کس خوش دہن کی
کہ حجت ذائقہ پر چل رہی ہے

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر
مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

قناعت ہے کسی مفلس کی بیوی
ریاست داشتہ پر چل رہی ہے

غزل کی شاعری خورشید اکبر
بساط مرثیہ پر چل رہی ہے