ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے
وفا شعار نہیں وہ وفا شناس تو ہے
وہ دل کی بات زباں سے نہ کچھ کہیں شاید
ہمارے حال پہ چہرہ مگر اداس تو ہے
یہ دل فریب بنارس کی صبح کا منظر
اودھ کی شام دل آرا ہمارے پاس تو ہے
بھرم رہے گا ترے مے کدے کا بھی ساقی
بلا سے خالی سہی ہاتھ میں گلاس تو ہے
چلے ہی جائیں نگاہوں سے دور آپ مگر
حسین یادوں کی دولت ہمارے پاس تو ہے
کرے بھلے ہی نہ رحمت کی مجھ پر تو بارش
ترے کرم کی مرے دل میں ایک آس تو ہے
یہ سچ ہے اس نے بجھائی نہ تشنگی لیکن
ہماری تشنہ دہانی کا اس کو پاس تو ہے
درست ہے کہ فرشتہ صفت نہیں دانشؔ
خدا گواہ بصیرت کی اس کو پیاس تو ہے
غزل
ستم کے بعد بھی باقی کرم کی آس تو ہے
دانش فراہی