ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے
بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے
مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے
تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے
وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے
بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے

غزل
ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
حسرتؔ موہانی