EN हिंदी
ستم دیکھو کہ جو کھوٹا نہیں ہے | شیح شیری
sitam dekho ki jo khoTa nahin hai

غزل

ستم دیکھو کہ جو کھوٹا نہیں ہے

پرکھر مالوی کانھا

;

ستم دیکھو کہ جو کھوٹا نہیں ہے
چلن میں بس وہی سکہ نہیں ہے

نمک زخموں پہ اب ملتا نہیں ہے
یہ لگتا ہے وہ اب میرا نہیں ہے

یہاں پر سلسلہ ہے آنسوؤں کا
دیا گھر میں مرے بجھتا نہیں ہے

یہی رشتہ ہمیں جوڑے ہوئے ہے
کہ دونوں کا کوئی اپنا نہیں ہے

نئے دن میں نئے کردار میں ہوں
مرا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہے

مری کیا آرزو ہے کیا بتاؤں
مرا دل مجھ پہ بھی کھلتا نہیں ہے

مرے ہاتھوں کے زخموں کی بدولت
تری راہوں میں اک کانٹا نہیں ہے

سفر میں ساتھ ہو گزرا زمانہ
تھکن کا پھر پتا چلتا نہیں ہے

مجھے شک ہے تری موجودگی پر
تو دل میں ہے مرے اب یا نہیں ہے

تری یادوں کو میں اگنور کر دوں
مگر یہ دل مری سنتا نہیں ہے

ذرا سا وقت دو رشتے کو کانہاؔ
یہ دھاگہ تو بہت الجھا نہیں ہے