EN हिंदी
ستم بھی کرتا ہے اس کا صلہ بھی دیتا ہے | شیح شیری
sitam bhi karta hai us ka sila bhi deta hai

غزل

ستم بھی کرتا ہے اس کا صلہ بھی دیتا ہے

مشفق خواجہ

;

ستم بھی کرتا ہے اس کا صلہ بھی دیتا ہے
کہ میرے حال پہ وہ مسکرا بھی دیتا ہے

شناوروں کو اسی نے ڈبو دیا شاید
جو ڈوبتوں کو کنارے لگا بھی دیتا ہے

یہی سکوت یہی دشت جاں کا سناٹا
جو سننا چاہے کوئی تو صدا بھی دیتا ہے

عجیب کوچۂ قاتل کی رسم ہے کہ یہاں
جو قتل کرتا ہے وہ خوں بہا بھی دیتا ہے

وہ کون ہے کہ جلاتا ہے دل میں شمع امید
پھر اپنے ہاتھ سے اس کو بجھا بھی دیتا ہے

وہ کون ہے کہ بناتا ہے نقش پانی پر
تو پتھروں کی لکیریں مٹا بھی دیتا ہے

وہ کون ہے کہ جو بنتا ہے راہ میں دیوار
اور اس کے بعد نئی رہ دکھا بھی دیتا ہے

وہ کون ہے کہ دکھاتا ہے رنگ رنگ کے خواب
اندھیری راتوں میں لیکن جگا بھی دیتا ہے

وہ کون ہے کہ غموں سے نوازتا ہے مجھے
غموں کو سہنے کا پھر حوصلہ بھی دیتا ہے

مجھی سے کوئی چھپاتا ہے راز غم سر شام
مجھی کو آخر شب پھر بتا بھی دیتا ہے