ستارے کا راز رکھ لیا مہمان میں نے
اک اجلے خواب اور آنکھ کے درمیان میں نے
چڑھا ہے جب چاند آسماں پر تو بوجھ اترا
سنا دی ہر سونے والے کو داستان میں نے
تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں
چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میں نے
میں دھوپ میں کیوں کسی کا احسان مند ہوتا
خود اپنے سائے کو کر لیا سائبان میں نے
جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
غزل
ستارے کا راز رکھ لیا مہمان میں نے
جمال احسانی