ستارہ ہار چکی تھی سبھی جواری رات
بس ایک چاند بچا تھا سو وہ بھی ہاری رات
بتاؤ کیسے کہاں تم نے کل گزاری رات
اٹھائی سود پہ یا قرض پہ اتاری رات
نہیں بلائی نہیں ہم نے خود بخود آئی
یہاں نہ آتی تو جاتی کہاں بیچاری رات
اتارا ٹانگ دیا رین کوٹ کھونٹی پر
پھر اس سے رستی رہی بوند بوند ساری رات
یہی حساب ہے اپنی بھی زندگی کا دوست
نقد میں دن کا کیا سودا اور ادھاری رات
ہمیں کفن نظر آنے لگے ستاروں پر
جو بچپنے میں ستاروں کی تھی پٹاری رات
غزل
ستارہ ہار چکی تھی سبھی جواری رات
بھویش دلشاد