ستارے چپ ہیں کہ نغمہ سرا سمندر ہے
شب خموش کے دل کی صدا سمندر ہے
سکوت لب کو صداؤں کا پیش رو سمجھو
کہ رود بار کے آگے کھلا سمندر ہے
وہ دیکھتا ہے مرے اضطراب کو ہنس کر
میں تیز رو ہوں وہ ٹھہرا ہوا سمندر ہے
مہہ و نجوم دکھاتے ہیں آئنہ اس کو
فلک کے سامنے چہرہ نما سمندر ہے
مٹا چلے ہیں مسافت کا نقش اہل طلب
ہوا سروں میں ہے اور زیر پا سمندر ہے
نظر میں صورت ساحل ابھی نہیں آئی
مرے سفر کا ہر اک مرحلہ سمندر ہے
غزل
ستارے چپ ہیں کہ نغمہ سرا سمندر ہے
زاہد فارانی