ستارے آنے لگے اہتمام کرنے کو
بضد ہے چاند بھی کچھ تام جھام کرنے کو
چمن میں باد صبا کر رہی ہے سرگوشی
وہ آنے والے ہیں دم بھر قیام کرنے کو
صعوبتوں سے سفر کی تھکا ہوا ہے وہ
خموشی چاہئے اس سے کلام کرنے کو
سنا ہے ترک تعلق پہ وہ پشیماں ہے
کہا تھا کس نے یہ قصہ تمام کرنے کو
ہمارے بیچ میں اک ربط غائبانہ ہے
نہیں یہ بات زمانے میں عام کرنے کو
غزل
ستارے آنے لگے اہتمام کرنے کو
نصرت مہدی