ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم
پھر اس کے بعد نظر سے گرا دئے گئے ہم
عزیز تھے ہمیں نو واردان کوچۂ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے راستہ دئے گئے ہم
شکست و فتح کے سب فیصلے ہوئے کہیں اور
مثال مال غنیمت لٹا دئے گئے ہم
زمین فرش گل و لالہ سے سجائی گئی
پھر اس زمیں کی امانت بنا دئے گئے ہم
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئے گئے ہم
غزل
ستارہ وار جلے پھر بجھا دئے گئے ہم
افتخار عارف