سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے
لہو کی مہکار آ رہی ہے کٹے ہوئے شام کے پروں سے
عجب نہیں خاک کی اداسی بھری نگاہوں کا اذن پا کر
پلٹ پڑیں ایک دن رواں پانیوں کے دھارے سمندروں سے
وہ کون تھا جو کہیں بہت دور کے نگر سے پکارتا تھا
وہ کیا صدا تھی کہ ایسی عجلت میں لوگ رخصت ہوئے گھروں سے
بدن میں پھر سانس لے رہا ہے الاؤ اندھی مسافتوں کا
نگاہ مانوس ہو رہی تھی ابھی پڑاؤ کے منظروں سے
میں ہوں مگر آج اس گلی کے سبھی دریچے کھلے ہوئے ہیں
کہ اب میں آزاد ہو چکا ہوں تمام آنکھوں کے دائروں سے
قلم کے اعجاز سے کسی پر انہیں میں کیا اختیار دوں گا
وہ جن کی تنظیم ہو سکی تھی نہ ان کے اپنے پیمبروں سے
جو ہو سکے تو وجود ہی کی کھری عدالت سے فیصلہ لو
فضول ہے جرم کے نتیجے میں داد خواہی ستم گروں سے
غزل
سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے
غلام حسین ساجد