صرف اک لرزش ہے نوک خار پر شبنم کی بوند
پھر بھی اس فرصت پر اس کی مجھ کو رشک آ جائے ہے
میری تنہائی نہ پوچھو جیسے کوئی نقش پا
دور صحرا کے کسی گوشہ میں پایا جائے ہے
سنگ کیا ہے بس سراپا انتظار بت تراش
زندگی کا خواب لوگو یوں بھی دیکھا جائے ہے
شب کا وہ پچھلا پہر اور پھیکی پھیکی چاندنی
رات بس کر جیسے کوئی ہار کمھلا جائے ہے
رات کی تنہائیاں اور ان کی آمد کا خیال
چاند جیسے روح کے اندر سے گزرا جائے ہے
اس سہی قد کا خرام ناز وہ فتنہ ہے جو
ہر قدم پر اک نئے سانچے میں ڈھلتا جائے ہے
اب یہ حال دل ہے جیسے رکھ کے کانٹوں پر نیازؔ
ریشمی چادر کو بے دردی سے کھینچا جائے ہے
غزل
صرف اک لرزش ہے نوک خار پر شبنم کی بوند (ردیف .. ے)
نیاز فتح پوری