صرف آنکھیں تھیں ابھی ان میں اشارے نہیں تھے
دل پہ موسم یہ محبت نے اتارے نہیں تھے
جیسی راتوں میں سفر ہم نے کیا تھا آغاز
سر بسر سمتیں ہی سمتیں تھیں ستارے نہیں تھے
اب تو ہر شخص کی خاطر ہوئی مطلوب ہمیں
ہم کسی کے بھی نہیں تھے جو تمہارے نہیں تھے
جب ہمیں کوئی توقع ہی نہیں تھی تم سے
ایسے اس وقت بھی حالات ہمارے نہیں تھے
مہلت عمر میں رہنے دیے اس نے شامل
جو شب و روز کبھی ہم نے گزارے نہیں تھے
جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں تھی پروا
اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے
ڈوب ہی جانا مقدر تھا ہمارا کہ وہاں
جس طرف دیکھیے پانی تھا کنارے نہیں تھے
کیوں نہیں عشق بھلا ہر کس و نا کس کا شعار
اس تجارت میں اگر اتنے خسارے نہیں تھے
ٹھیک ہے کوئی مدد کو نہیں پہنچا لیکن
یہ بھی سچ ہے کہ ظفرؔ ہم بھی پکارے نہیں تھے
غزل
صرف آنکھیں تھیں ابھی ان میں اشارے نہیں تھے
ظفر اقبال