سمٹے ہوئے جذبوں کو بکھرنے نہیں دیتا
یہ آس کا لمحہ ہمیں مرنے نہیں دیتا
قسمت مری راتوں کی سنورنے نہیں دیتا
وہ چاند کو اس گھر میں اترنے نہیں دیتا
کرتی ہے سحر زرد گلابوں کی تجارت
معیار ہنر زخم کو بھرنے نہیں دیتا
بادل کے سوا کون ہے ہمدرد رفیقو
ترشول سی کرنوں کو بکھرنے نہیں دیتا
آنکھوں کے دریچے بھی ذکیؔ اس نے کئے بند
سورج کو سمندر میں اترنے نہیں دیتا
غزل
سمٹے ہوئے جذبوں کو بکھرنے نہیں دیتا
ذکی طارق