سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی
تو صبح نوحۂ معتوب گنگنائے گی
میں ہنس پڑوں گا تو پھر کسمسا اٹھے گی فضا
ہوائے تند مری لو جو گدگدائے گی
نمو میں موج بنے گی تمازت فردا
ردائے تیرگی جتنے قدم بڑھائے گی
زمین گائے گی آم اور جامنوں کے گیت
برستی بدلی وہ سر تال آزمائے گی
جہاں پہ چاند زمیں سے لپٹ کے مہکے گا
نشے میں چاندنی گیت اپنے گنگنائے گی
زمیں ستارے فلک ایک ہوں گے گردش میں
رتیں وہ ایسی اگر اپنے ساتھ لائے گی
ہزار بعد و تفاؤت کے باوجود حنیفؔ
وہاں بھی مجھ سے ملے گی جہاں وہ جائے گی
غزل
سمٹتی شام اگر درد کو جگائے گی
حنیف ترین