سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے
وہ جینا کس کی خاطر تھا یہ مرنا کس لیے ہے
محبت بھی ہے اور اپنا تقاضا بھی نہیں کچھ
ہم اس سے صاف کہہ دیں گے مکرنا کس لیے ہے
جھجھکنا ہے تو اس کے سامنے ہونا ہی کیسا
جو ڈرنا ہے تو دریا میں اترنا کس لیے ہے
مسافت خواب ہے تو خواب میں اب جاگنا کیا
اگر چل ہی پڑے ہیں تو ٹھہرنا کس لیے ہے
نہ کرنے سے بھی ہوتا ہو جہاں سب کا گزارہ
وہاں آخر کسی نے کام کرنا کس لیے ہے
اگر رکنا نہیں اس نے ہمارے پاس تو پھر
ہمارے راستے پر سے گزرنا کس لیے ہے
وہ کہہ دے گا تو اٹھ جائیں گے اس کی بزم سے ہم
مناسب ہی نہیں لگتا پسرنا کس لیے ہے
ظفرؔ اس پر اثر تو کوئی ہوتا ہے نہ ہوگا
تو پھر یہ روز کا بننا سنورنا کس لیے ہے
غزل
سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے
ظفر اقبال