سلسلے حادثوں کے دھیان میں رکھ
عمر بھر خود کو امتحان میں رکھ
مانگ بھرتے ہیں جو صلیبوں کی
ان فرشتوں کو آسمان میں رکھ
جانے کس موڑ سے گزرنا ہو
اجنبی راستے گمان میں رکھ
زندگی کے بہت قریب نہ جا
فاصلہ کچھ تو اپنے دھیان میں رکھ
بے حسوں پر بھی جو گراں گزریں
ایسے جملوں کو داستان میں رکھ
آخری تیر کی طرح خود کو
کھینچ کر وقت کی کمان میں رکھ
جسم احساس کے چٹخ جائیں
ایسے بت کانچ کی دکان میں رکھ
پی کے کچھ تجربوں کا زہر اکملؔ
مختلف ذائقے زبان میں رکھ
غزل
سلسلے حادثوں کے دھیان میں رکھ
اکمل امام