EN हिंदी
سلسلے حادثوں کے دھیان میں رکھ | شیح شیری
silsile hadson ke dhyan mein rakh

غزل

سلسلے حادثوں کے دھیان میں رکھ

اکمل امام

;

سلسلے حادثوں کے دھیان میں رکھ
عمر بھر خود کو امتحان میں رکھ

مانگ بھرتے ہیں جو صلیبوں کی
ان فرشتوں کو آسمان میں رکھ

جانے کس موڑ سے گزرنا ہو
اجنبی راستے گمان میں رکھ

زندگی کے بہت قریب نہ جا
فاصلہ کچھ تو اپنے دھیان میں رکھ

بے حسوں پر بھی جو گراں گزریں
ایسے جملوں کو داستان میں رکھ

آخری تیر کی طرح خود کو
کھینچ کر وقت کی کمان میں رکھ

جسم احساس کے چٹخ جائیں
ایسے بت کانچ کی دکان میں رکھ

پی کے کچھ تجربوں کا زہر اکملؔ
مختلف ذائقے زبان میں رکھ