سلسلہ یوں بھی روا رکھا شناسائی کا
کوئی رشتہ تو رہے آنکھ سے بینائی کا
تبصرہ خوب یہاں تیر کی رفتار پہ ہے
تذکرہ کون کرے زخم کی گہرائی کا
محترم کہہ کے مجھے اس نے پشیمان کیا
کوئی پہلو نہ ملا جب مری رسوائی کا
تنگ آ کر تری یادوں کو پرے جھٹکا ہے
مرثیہ کون پڑھے روز کی تنہائی کا
اپنے زخموں سے گلہ ہے مجھے اتنا اظہرؔ
میں نے احسان اٹھا رکھا ہے پروائی کا
غزل
سلسلہ یوں بھی روا رکھا شناسائی کا
اظہر نواز