EN हिंदी
سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا | شیح شیری
silsila to kar qasid us talak rasai ka

غزل

سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا

تمیزالدین تمیز دہلوی

;

سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
دکھ سہا نہیں جاتا یار کی جدائی کا

جب ذرا مہک آئی شاخ میں لچک آئی
باغباں کو دھیان آیا باغ کی صفائی کا

فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا
جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا

سر پہ پیر رکھتا ہے مجھ سے بیر رکھتا ہے
میں نے کب کیا دعویٰ تجھ سے آشنائی کا

دوستوں میں ٹھن جاتی تھی یہ اس کی نادانی
دشمنوں کے ہاتھ آتا موقع جگ ہنسائی کا

ہر کوئی پریشاں ہے آسماں سے نالاں ہے
ہر کسی کو شکوہ ہے اس کی کج ادائی کا

یہ عجیب شیوہ ہے دوستوں کا شکوہ ہے
ہر کسی کو دعویٰ ہے اپنی پارسائی کا

اے تمیز بس بھی کر اس قدر نہ مر اس پر
کیوں ہے شوقؔ چرایا تجھ کو جبہ سائی کا