سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
دکھ سہا نہیں جاتا یار کی جدائی کا
جب ذرا مہک آئی شاخ میں لچک آئی
باغباں کو دھیان آیا باغ کی صفائی کا
فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا
جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا
سر پہ پیر رکھتا ہے مجھ سے بیر رکھتا ہے
میں نے کب کیا دعویٰ تجھ سے آشنائی کا
دوستوں میں ٹھن جاتی تھی یہ اس کی نادانی
دشمنوں کے ہاتھ آتا موقع جگ ہنسائی کا
ہر کوئی پریشاں ہے آسماں سے نالاں ہے
ہر کسی کو شکوہ ہے اس کی کج ادائی کا
یہ عجیب شیوہ ہے دوستوں کا شکوہ ہے
ہر کسی کو دعویٰ ہے اپنی پارسائی کا
اے تمیز بس بھی کر اس قدر نہ مر اس پر
کیوں ہے شوقؔ چرایا تجھ کو جبہ سائی کا

غزل
سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
تمیزالدین تمیز دہلوی