سیپ مٹھی میں ہے آفاق بھی ہو سکتا ہے
اور اگر چاہوں تو یہ خاک بھی ہو سکتا ہے
یہ جو معصوم سا ڈر ہے کسی بچے جیسا
ایسے حالات میں سفاک بھی ہو سکتا ہے
آؤ اس تیسرے نکتے پہ بھی کچھ غور کریں
ہم جسے جفت کہیں طاق بھی ہو سکتا ہے
وجد میں رقص تو بے خوف کیا جاتا ہے
ہو اگر عشق تو بے باک بھی ہو سکتا ہے
ہجر ناسور ہے چپ چاپ ہی جھیلو اس کو
آہ و زاری سے خطرناک بھی ہو سکتا ہے
یہ جو سر سبز سا لگتا ہے امیدوں کا شجر
رت بدلنے پہ یہ خاشاک بھی ہو سکتا ہے
تو ابھی بھیج دے اس پار سے رحمت کوئی
میں یہ سنتی ہوں کرم ڈاک بھی ہو سکتا ہے
وہ جو کوسوں تجھے پھیلا ہوا آتا ہے نظر
وہ سمندر مری پوشاک بھی ہو سکتا ہے
یہ سیاہ بخت اسے ڈھونڈنے لگ جائیں اگر
ان کو پھر نور کا ادراک بھی ہو سکتا ہے
میں جو مٹی سے خدا اور بنانا چاہوں
آسماں میرے لیے چاک بھی ہو سکتا ہے
کیوں نا انجیلؔ دوبارہ سے اتاری جائے
کوئی عیسائی کی طرح پاک بھی ہو سکتا ہے
غزل
سیپ مٹھی میں ہے آفاق بھی ہو سکتا ہے
انجیل صحیفہ