سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش
ہاتھوں میں نکلتی کیوں تلوار کی گنجائش
پچھڑے ہوئے گاؤں کا شاید ہے وہ باشندہ
جو شہر میں ڈھونڈے ہے ایثار کی گنجائش
نفرت کی تعصب کی یوں رکھی گئیں اینٹیں
پیدا ہوئی ذہنوں میں دیوار کی گنجائش
پاکیزگی روحوں کی نیلام ہوئی جب سے
جسموں میں نکل آئی بازار کی گنجائش
اس طرح کھلے دل سے اقرار نہیں کرتے
رکھ لیجئے تھوڑی سی انکار کی گنجائش
گر عزم مصمم ہو اور جہد مسلسل بھی
صحرا میں نکل آئے گلزار کی گنجائش
سمجھیں کہ نہ سمجھیں وہ ہم نے تو اسدؔ رکھ دی
اشعار کے ہونٹوں پہ اظہار کی گنجائش
غزل
سینوں میں اگر ہوتی کچھ پیار کی گنجائش
اسد رضا