EN हिंदी
سینہ میں مرے بوجھ بھی اور دہکا چمن بھی | شیح شیری
sine mein mere bojh bhi aur dahka chaman bhi

غزل

سینہ میں مرے بوجھ بھی اور دہکا چمن بھی

نونیت شرما

;

سینہ میں مرے بوجھ بھی اور دہکا چمن بھی
کیا چیز تری یاد ہے خوشبو بھی گھٹن بھی

پہلے تو تمنا تھی تری صرف مگر اب
آنکھوں میں نظر آنے لگی میری تھکن بھی

ہے عشق سفر دل سے فقط دل کا مگر کیوں
اس راہ میں آتے ہیں بیاباں بھی چمن بھی

جو دل پہ گزرتی ہیں رقم کر اسے دل پر
زخموں کی نمائش نہ بنے بزم سخن بھی

تپتی ہوئی دھرتی کو مرے چھالوں نے سینچا
کچھ کام تو آیا ہے چلو باؤلا پن بھی

حیرت ہے، مجھے سانس وہیں آتی ہے جاناں
گھٹ جانا سکھائے جہاں یادوں کی پون بھی

کمہلایا ذرا رنگ تو وہ سوچ میں ڈوبے
آہوں سے ملا کرتا ہے کچھ سانولا پن بھی

پیروں کے تلے سے کہیں مٹی نہ کھسک جائے
ضد ہے مری مٹھی میں ہو دھرتی بھی گگن بھی

محبوب کے چہرہ کے مقابل بھی رہا پر
اس دور میں آیا تو ہوا چاند مشن بھی

نونیتؔ تو ہے فضل کی اونچائی کا حصہ
رکھ دل میں اگر نور تو رکھ ذہن میں فن بھی