سینے میں چراغ جل رہا ہے
ماتھے سے لہو ابل رہا ہے
ہونٹوں پہ چمن کھلے ہوئے ہیں
آنکھوں سے دھواں نکل رہا ہے
پیکر پہ اگے ہوئے ہیں کانٹے
احساس کا پیڑ پھل رہا ہے
باطن میں بپا ہے ایک طوفاں
دریا ہے کہ رخ بدل رہا ہے
کیا وقت پڑا ہے اے غم جاں
خود اپنا وجود کھل رہا ہے
میں جس کی تلاش کو چلا تھا
وہ شخص تو ساتھ چل رہا ہے
تنہا ہوں جلیلؔ اس نگر میں
مقتل میں چراغ جل رہا ہے
غزل
سینے میں چراغ جل رہا ہے
حسن اختر جلیل