EN हिंदी
شیام گوکل نہ جانا کہ رادھا کا جی اب نہ بنسی کی تانوں پہ لہرائے گا | شیح شیری
shyam gokul na jaana ki radha ka ji ab na bansi ki tanon pe lahraega

غزل

شیام گوکل نہ جانا کہ رادھا کا جی اب نہ بنسی کی تانوں پہ لہرائے گا

عابد حشری

;

شیام گوکل نہ جانا کہ رادھا کا جی اب نہ بنسی کی تانوں پہ لہرائے گا
کس کو فرصت غم زندگی سے یہاں کون بے وقت کے راگ سن پائے گا

اس گلی سے چلی درد کی رو مگر شہر میں اہل دل ہیں نہ اہل نظر
جانے کس سر سے گزرے گی یہ موج خوں جانے کس گھر یہ سیلاب غم جائے گا

ظلمت غم سے اتنے ہراساں نہ ہو کون مشکل ہے یارو جو آساں نہ ہو
یہ گراں خواب لمحے بھی کٹ جائیں گے رات ڈھل جائے گی دن نکل آئے گا

ہر نفس ہر قدم ہر نئے موڑ پر وقت اک زخم نو دے رہا ہے مگر
وقت خود اپنے زخموں کا مرہم بھی ہے وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جائے گا

کس لگن کس تمنا سے کس چاؤ سے موسم رنگ و نکہت کو دی تھی صدا
کیا خبر تھی کہ ابر بہار آفریں آگ کے پھول گلشن پہ برسائے گا

تیرے غم کے چراغوں کی صد رنگ ضو اک کرن دے سکے گی نہ احساس کو
بزم جاں اتنی سنسان ہو جائے گی شہر دل اتنا ویران ہو جائے گا