شیام گوکل نہ جانا کہ رادھا کا جی اب نہ بنسی کی تانوں پہ لہرائے گا
کس کو فرصت غم زندگی سے یہاں کون بے وقت کے راگ سن پائے گا
اس گلی سے چلی درد کی رو مگر شہر میں اہل دل ہیں نہ اہل نظر
جانے کس سر سے گزرے گی یہ موج خوں جانے کس گھر یہ سیلاب غم جائے گا
ظلمت غم سے اتنے ہراساں نہ ہو کون مشکل ہے یارو جو آساں نہ ہو
یہ گراں خواب لمحے بھی کٹ جائیں گے رات ڈھل جائے گی دن نکل آئے گا
ہر نفس ہر قدم ہر نئے موڑ پر وقت اک زخم نو دے رہا ہے مگر
وقت خود اپنے زخموں کا مرہم بھی ہے وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جائے گا
کس لگن کس تمنا سے کس چاؤ سے موسم رنگ و نکہت کو دی تھی صدا
کیا خبر تھی کہ ابر بہار آفریں آگ کے پھول گلشن پہ برسائے گا
تیرے غم کے چراغوں کی صد رنگ ضو اک کرن دے سکے گی نہ احساس کو
بزم جاں اتنی سنسان ہو جائے گی شہر دل اتنا ویران ہو جائے گا
غزل
شیام گوکل نہ جانا کہ رادھا کا جی اب نہ بنسی کی تانوں پہ لہرائے گا
عابد حشری