EN हिंदी
شعور تک ابھی ان کی کہاں رسائی ہے | شیح شیری
shuur tak abhi unki kahan rasai hai

غزل

شعور تک ابھی ان کی کہاں رسائی ہے

عبید الرحمان

;

شعور تک ابھی ان کی کہاں رسائی ہے
ابھی تو کتنے خداؤں کی واں خدائی ہے

گمان تیرگی رخشندگی پہ ہونے لگا
دیار شب نے عجب داستاں سنائی ہے

اب اس پہ دور نکل آئے تو خفا کیوں ہو
یہ راہ بھی تو تمہی نے ہمیں دکھائی ہے

کبھی جو مجھ سے ملے وہ رہے خموش مگر
پس سکوت زباں خوب ہم نوائی ہے

ہر ایک فکر کی تہہ میں ہو جذبۂ خالص
بہت ہی سخت تقاضائے پارسائی ہے

بہت ہی خوب کہ دریا کے پاس رہتے ہو
کہو کہ پیاس بھی اپنی کبھی بجھائی ہے

جو خود ہی جادہ و منزل سے نابلد ہے عبیدؔ
عجیب بات یہاں اس کی رہنمائی ہے