شعور و فکر کی تجدید کا گماں تو ہوا
چلو کہ فن کا افق کشت زعفراں تو ہوا
بلا سے لے اڑی مجھ کو شعاع نور سحر
فصیل شب سے گزر کر میں بے کراں تو ہوا
یہ کم نہیں ہے کہ میں ہوں خلاؤں کا ہم راز
مرے وجود میں گم سارا آسماں تو ہوا
یہ ٹھیک ہے کہ فنا ہو گیا وجود اس کا
مگر وہ قطرہ سمندر کا رازداں تو ہوا
تمام حرف و نوا میں سمٹ گیا لیکن
ہمارا غم بھی بکھر کر غم جہاں تو ہوا
جنون شوق تو مصلوب ہو گیا لیکن
ہر ایک لمحہ مہ و سال پر گراں تو ہوا
ہمارے ساتھ ہی بکھرا ہماری ذات کا کرب
یہ راز لفظوں کے انبار سے عیاں تو ہوا
میں ان کے سامنے آئینہ بن گیا فرحتؔ
خود اپنی شکل پہ ان کو مرا گماں تو ہوا
غزل
شعور و فکر کی تجدید کا گماں تو ہوا
فرحت قادری