EN हिंदी
شعور نو عمر ہوں نہ مجھ کو متاع رنج و ملال دینا | شیح شیری
shuur-e-nau-umr hun na mujhko mata-e-ranj-o-malal dena

غزل

شعور نو عمر ہوں نہ مجھ کو متاع رنج و ملال دینا

احتشام الحق صدیقی

;

شعور نو عمر ہوں نہ مجھ کو متاع رنج و ملال دینا
کہ مجھ کو آتا نہیں غموں کو خوشی کے سانچوں میں ڈھال دینا

حدود میں اپنی رہ کے شاید بچا سکوں میں وجود اپنا
میں ایک قطرہ ہوں مجھ کو دریا کے راستے پر نہ ڈال دینا

اگر خلا میں پہنچ گیا تو پلٹ کے واپس نہ آ سکوں گا
تم اپنی حد کشش سے اونچا نہ مجھ کو یارو اچھال دینا

وہ صورتاً آدمی ہے لیکن مزاج سے مار آستیں ہے
اگر اسے آستیں میں رکھنا تو زہر پہلے نکال دینا

نہ جانے کھڑکی سے جھانکتی یہ کرن کسے راستہ دکھا دے
تم اپنے کمرے کی کھڑکیوں پر دبیز پردے نہ ڈال دینا

سکوت شب توڑنے کی خاطر بھی کوئی ہنگامہ ساتھ رکھنا
نہ شام ہوتے ہی ہر تمنا کو قید خانے میں ڈال دینا

یہ ہم نے مانا کہ تم میں سورج کی سی تپش ہے مگر یہ سن لو
کہ ہم سمندر ہیں اور آساں نہیں سمندر ابال دینا