شعور ہوش سے بیگانہ کہہ دیا ہوتا
ذرا سی بات تھی دیوانہ کہہ دیا ہوتا
ہوئی یہ خیر نہ دیکھا مری طرف ورنہ
نگاہ شوق نے افسانہ کہہ دیا ہوتا
اگر نہ ہوتیں ان آنکھوں کی مستیاں مخصوص
تو عام لوگوں نے مے خانہ کہہ دیا ہوتا
کہا ہر ایک نے مجھ کو تمہارا دیوانہ
کبھی تو تم نے بھی دیوانہ کہہ دیا ہوتا
مرے سبب سے زمانے کا کیوں لیا الزام
ہے آدمی کوئی دیوانہ کہہ دیا ہوتا
یہ واقعہ ہے اگر شہر میں نہ ہوتے تم
تو میں نے شہر کو ویرانہ کہہ دیا ہوتا
نہ بڑھتی بات محبت میں اس قدر صائبؔ
جو اس نے اپنوں میں بیگانہ کہہ دیا ہوتا

غزل
شعور ہوش سے بیگانہ کہہ دیا ہوتا
محمد صدیق صائب ٹونکی