شکر کرم بھی شکوۂ غم بھی سارے عنواں آپ ہوئے
مجھ پہ توجہ آپ نے کی تھی مجھ سے گریزاں آپ ہوئے
دست طلب کب میں نے بڑھایا کچھ نہ ملا تو شکوہ کیا
کیوں میرے دامان تہی پر اتنے پشیماں آپ ہوئے
خاک دشت وفا تھی رخ پر ورنہ کوئی بات نہ تھی
آئنہ اپنا دھندلا پا کر کتنے حیراں آپ ہوئے
اف یہ تواضع ہائے یہ خاطر کوئی بھلا کس دل سے کرے
عمر تمام جہاں رہنا تھا اس گھر مہماں آپ ہوئے
آپ کے دم سے شاذؔ کا فن ہے حسن بیاں ہے رنگ سخن ہے
نام ہمارا چل نکلا ہے صاحب دیواں آپ ہوئے

غزل
شکر کرم بھی شکوۂ غم بھی سارے عنواں آپ ہوئے
شاذ تمکنت