شور میں ارتکاز ملتا ہے
تب کہیں جا کے راز ملتا ہے
گونج اٹھتی ہے دور تک آواز
سوز سے جیسے ساز ملتا ہے
آپ ہی آپ ہاتھ ملتے ہوئے
زندگی کا جواز ملتا ہے
خواب ملتے ہیں مخملیں کس کو
کس کو بستر گداز ملتا ہے
کس سے ہوتی ہیں راز کی باتیں
کس کو وہ بے نیاز ملتا ہے
دیکھیے کون سی ہواؤں میں
وہ ہوائی جہاز ملتا ہے
غزل
شور میں ارتکاز ملتا ہے
عمران شمشاد