شور کیسا ہے مرے دل کے خرابے سے اٹھا
شہر جیسے کہ کوئی اپنے ہی ملبے سے اٹھا
یا اٹھا دشت میں دیوانے سے بار فرقت
یا ترے شہر میں اک چاہنے والے سے اٹھا
یا مری خاک کو مل جانے دے اس مٹی میں
یا مجھے خون کی للکار پہ کوچے سے اٹھا
تو مرے پاس نہیں ہوتا یہ سچ ہے لیکن
تری آواز پر ہر صبح میں سوتے سے اٹھا
چاک پہ رکھا ہے تو لمس بھی دے ہاتھوں کا
میری پہچان تعطل کے اندھیرے سے اٹھا
دل کہ ہے خون کا اک قطرہ مگر دنیا میں
جب اٹھا حشر اسی ایک علاقے سے اٹھا
یہ اجالوں کی عنایت ہے کہ بندہ اشہرؔ
اپنے سائے پہ گرا اپنے ہی سائے سے اٹھا
غزل
شور کیسا ہے مرے دل کے خرابے سے اٹھا
اشہر ہاشمی