EN हिंदी
شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو | شیح شیری
shor-e-tufan-e-hawa hai be-aman sunte raho

غزل

شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو

شمس الرحمن فاروقی

;

شور طوفان ہوا ہے بے اماں سنتے رہو
بند کوچوں میں رواں ہے خون جاں سنتے رہو

کان سن ہونے لگے ہیں اپنے گوش ہوش سے
سرخ پریوں کی صدا دامن کشاں سنتے رہو

گرمی آواز کو شعلہ بنا کر پھول سا
دور تک حد نظر تک رائگاں سنتے رہو

شورش بحر کرم میں ماہی مشعل کہاں
جسم شب میں دن کی دھڑکن بے گماں سنتے رہو

گاڑھی تاریکی میں بھاری برگ خواہش کی مہک
مثل کوندے کے مکاں اندر مکاں سنتے رہو