شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
آج اس دھوم سے ظالم تیرا شیدا نکلا
یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا
غم سے ہم بھانمتی بن کے جہاں بیٹھے تھے
اتفاقاً کہیں وہ شوخ بھی واں آ نکلا
سینے کی آگ دکھانے کو دہن سے اپنے
شعلے پر شعلہ بھبھوکے پہ بھبھوکا نکلا
مت شفق کہہ یہ ترا خون فلک پر ہے نظیرؔ
دیکھ ٹپکا تھا کہاں اور کہاں جا نکلا
غزل
شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
نظیر اکبرآبادی