شعلۂ عشق میں جو دل کو تپاں رکھتے ہیں
اپنی خاطر میں کہاں کون و مکاں رکھتے ہیں
سر جھکاتے ہیں اسی در پہ کہ وہ جانتا ہے
ہم فقیری میں بھی انداز شہاں رکھتے ہیں
بادباں چاک ہے اور باد مخالف منہ زور
حوصلہ یہ ہے کہ کشتی کو رواں رکھتے ہیں
وحشت دل نے ہمیں چین سے جینے نہ دیا
چشم گریاں کبھی جاں شعلہ فشاں رکھتے ہیں
اس کو فرصت نہیں تو ہم بھی زباں کیوں کھولیں
ورنہ سینے میں گل زخم نہاں رکھتے ہیں
عرش تا فرش پھرایا گیا کوچہ کوچہ
اب خدا جانے مری خاک کہاں رکھتے ہیں
دل میں وہ رشک گلستاں لیے پھرتے ہیں شمیمؔ
پھول کھلتے ہیں قدم آپ جہاں رکھتے ہیں
غزل
شعلۂ عشق میں جو دل کو تپاں رکھتے ہیں
سید احمد شمیم