شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا
گل کدوں کے طلسم بھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا
آج ہم نے تمام حسن بہار
ایک برگ گلاب میں دیکھا
سر کھلے پا برہنہ کوٹھے پر
رات اسے ماہتاب میں دیکھا
فرصت موسم نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب خواب میں دیکھا
غزل
شعلہ سا پیچ و تاب میں دیکھا
ناصر کاظمی