شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
نارسائی میں بھی کیا کام ہنر سے نکلا
نشۂ مرگ سی اک لہر لہو میں چمکی
جب قبا اتری تو خنجر بھی کمر سے نکلا
سنگ بے حس سے اٹھی موج سیہ تاب کوئی
سرسراتا ہوا اک سانپ کھنڈر سے نکلا
میں نے دیکھا تھا سہارے کے لیے چاروں طرف
کہ مرے پاس ہی اک ہاتھ بھنور سے نکلا
دل کے آشوب کا نیرنگ تھا کیا اشک میں زیبؔ
ایک بیتاب سمندر بھی گہر سے نکلا

غزل
شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
زیب غوری