شکوہ نصیب کا نہ کرے بار بار تو
مشکل حیات ہنس کے ہمیشہ گزار تو
کیوں فکر حال و ماضی کی کرتا ہے روز و شب
سب اس کو اختیار ہے بے اختیار تو
مایوس کیوں جفاؤں سے ہوتا ہے بے وجہ
سب کے گلے میں ڈال وفاؤں کے ہار تو
خوددار بن خودی کی طلب لے کے جی سدا
بے فکر اس پہ جان بھی کر دے نثار تو
وہ سر پرست ہے تو صباؔ تجھ کو ناز ہے
اپنا مقام جان لے خود کو سنوار تو

غزل
شکوہ نصیب کا نہ کرے بار بار تو
ببلس ھورہ صبا