EN हिंदी
شکوہ نصیب کا نہ کرے بار بار تو | شیح شیری
shikwa nasib ka na kare bar bar tu

غزل

شکوہ نصیب کا نہ کرے بار بار تو

ببلس ھورہ صبا

;

شکوہ نصیب کا نہ کرے بار بار تو
مشکل حیات ہنس کے ہمیشہ گزار تو

کیوں فکر حال و ماضی کی کرتا ہے روز و شب
سب اس کو اختیار ہے بے اختیار تو

مایوس کیوں جفاؤں سے ہوتا ہے بے وجہ
سب کے گلے میں ڈال وفاؤں کے ہار تو

خوددار بن خودی کی طلب لے کے جی سدا
بے فکر اس پہ جان بھی کر دے نثار تو

وہ سر پرست ہے تو صباؔ تجھ کو ناز ہے
اپنا مقام جان لے خود کو سنوار تو