EN हिंदी
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے | شیح شیری
shikwa na ho tasalsul-e-ah-o-fughan rahe

غزل

شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے

تجمل حسین اختر

;

شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
وہ چاہتے ہیں آگ نہ بھڑکے دھواں رہے

لیل و نہار پہلے جو تھے اب کہاں رہے
ہاں یاد ہے کہ تم بھی کبھی مہرباں رہے

قربت میں آ پڑے تھے قیامت کے فاصلے
تنہا تھے ہم تو قول و قسم درمیاں رہے

ہر گام پر ہیں دار و رسن کی سہولتیں
اب جسم و جاں لٹاؤ کہ نام و نشاں رہے

یوں مسکرا کے ترک تعلق کی گفتگو
ایسا ستم کہ جس پہ کرم کا گماں رہے

راہوں کے پیچ و خم میں مسافر بکھر گئے
اب کارواں قیام کرے یا رواں رہے

خوشبوئے پیرہن میں بسا ہے رواں رواں
وہ ہم سے لاکھ دور رہے جزو جاں رہے