شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
وہ چاہتے ہیں آگ نہ بھڑکے دھواں رہے
لیل و نہار پہلے جو تھے اب کہاں رہے
ہاں یاد ہے کہ تم بھی کبھی مہرباں رہے
قربت میں آ پڑے تھے قیامت کے فاصلے
تنہا تھے ہم تو قول و قسم درمیاں رہے
ہر گام پر ہیں دار و رسن کی سہولتیں
اب جسم و جاں لٹاؤ کہ نام و نشاں رہے
یوں مسکرا کے ترک تعلق کی گفتگو
ایسا ستم کہ جس پہ کرم کا گماں رہے
راہوں کے پیچ و خم میں مسافر بکھر گئے
اب کارواں قیام کرے یا رواں رہے
خوشبوئے پیرہن میں بسا ہے رواں رواں
وہ ہم سے لاکھ دور رہے جزو جاں رہے

غزل
شکوہ نہ ہو تسلسل آہ و فغاں رہے
تجمل حسین اختر