شکوۂ اضطراب کون کرے
اپنی دنیا خراب کون کرے
گن تو لیتے ہیں انگلیوں پہ گناہ
رحمتوں کا حساب کون کرے
عشق کی تلخ کامیوں کے نثار
زندگی کامیاب کون کرے
ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں
پھر یہ کار ثواب کون کرے
غرق جام شراب ہو کے شکیلؔ
شغل جام و شراب کون کرے
غزل
شکوۂ اضطراب کون کرے
شکیل بدایونی