EN हिंदी
شکوۂ اضطراب کون کرے | شیح شیری
shikwa-e-iztirab kaun kare

غزل

شکوۂ اضطراب کون کرے

شکیل بدایونی

;

شکوۂ اضطراب کون کرے
اپنی دنیا خراب کون کرے

گن تو لیتے ہیں انگلیوں پہ گناہ
رحمتوں کا حساب کون کرے

عشق کی تلخ کامیوں کے نثار
زندگی کامیاب کون کرے

ہم سے مے کش جو توبہ کر بیٹھیں
پھر یہ کار ثواب کون کرے

غرق جام شراب ہو کے شکیلؔ
شغل جام و شراب کون کرے