EN हिंदी
شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے | شیح شیری
shikasta KHwab ke malbe mein DhunDhta kya hai

غزل

شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے

قیصر شمیم

;

شکستہ خواب کے ملبے میں ڈھونڈھتا کیا ہے
کھنڈر کھنڈر ہے یہاں دھول کے سوا کیا ہے

نظر کی دھند میں ہیں بھولی بسری تصویریں
پلٹ کے دیکھنے والے یہ دیکھنا کیا ہے

ابھی تو کاٹ رہی ہے ہر ایک سانس کی دھار
ازل جب آئے تو دیکھوں کہ انتہا کیا ہے

رہے گی دھوپ مرے سر پہ آخری دن تک
جواں ہے پیڑ مگر اس کا آسرا کیا ہے

تجھے پسند کہاں حال پوچھنا میرا
تری نگاہ میں لیکن سوال سا کیا ہے

دھواں نہیں نہ سہی آگ تو نظر آئے
یوں چپکے چپکے سلگنے سے فائدہ کیا ہے

اداس رات کی خاموشیوں میں اے قیصرؔ
قریب آتی ہوئی دور کی صدا کیا ہے