شکست مان کے تسخیر کر لیا ہے مجھے
غزال دشت نے زنجیر کر لیا ہے مجھے
میں منتشر تھا کسی عکس رائیگاں کی طرح
نگاہ شوق نے تصویر کر لیا ہے مجھے
بکھر گیا تھا سر شہر آشیانہ میں
کسی کے ربط نے تعمیر کر لیا ہے مجھے
نکل کے جاؤں کہاں میں حصار گردش سے
سفر نے پاؤں میں زنجیر کر لیا ہے مجھے
سکوت غم سے بدن خاک ہو چلا تھا مگر
طلسم لمس نے اکسیر کر لیا ہے مجھے
مرے سخن میں سما کر کتاب رو نے مری
خود اپنے حسن کی تفسیر کر لیا ہے مجھے
میں اک خیال سر رہ گزار شب تھا سعیدؔ
کسی کے خواب نے تعبیر کر لیا ہے مجھے
غزل
شکست مان کے تسخیر کر لیا ہے مجھے
سعید خان