EN हिंदी
شکست آبلۂ دل میں نغمگی ہے بہت | شیح شیری
shikast-e-abla-e-dil mein naghmagi hai bahut

غزل

شکست آبلۂ دل میں نغمگی ہے بہت

صادق نسیم

;

شکست آبلۂ دل میں نغمگی ہے بہت
سنے گا کون کہ دنیا بدل گئی ہے بہت

ہر ایک نقش میں ہے نا تمامیوں کی جھلک
ترے جہاں میں کسی چیز کی کمی ہے بہت

گلے لگا کے گل و نسترن کو رویا ہوں
کہ مجھ کو نظم گلستاں سے آگہی ہے بہت

یہاں کسی کا بھی چہرہ دکھائی دے نہ سکے
حریم دل میں تمنا کی روشنی ہے بہت

میں ایک لمحہ بھی مانند شمع جل نہ سکوں
وہ ایک شب کے لیے ہی سہی جلی ہے بہت

ہے خود فریب بہت میرے عہد کا فن کار
ہنر نہیں بھی تو شور ہنر وری ہے بہت

لبوں پہ جاں ہو تو احساس‌ تلخ و شیریں کیا
کہیں سے زہر ہی لاؤ کہ تشنگی ہے بہت

خرد کو ناز ہے کیوں رسم کجکلاہی پر
سر جنوں کے لیے مشت خاک بھی ہے بہت

گراں ہے جنس وفا اور مشتری نایاب
ہزار بار لٹا ہوں کہ دل غنی ہے بہت

عجب نشاط کے پہلو غم حبیب میں ہیں
کہ ڈوبتی نہیں یہ ناؤ ڈولتی ہے بہت

تمہارا نام کسی اجنبی کے لب پر تھا
ذرا سی بات تھی دل کو مگر لگی ہے بہت

دم وداع میں یوں مسکرا رہا ہوں نسیمؔ
کہ جیسے ان سے جدائی کی بھی خوشی ہے بہت