شیشہ صفت تھے آپ اور شیشہ صفت تھے ہم
بکھرے ہوئے سے آپ ہیں بکھرے ہوئے سے ہم
اس نے تھما دی ہاتھ میں اک بانسری ہمیں
پتھر اٹھا کے ہاتھ میں دینے لگے تھے ہم
موجود ہے تری طرح وہ پاس بھی نہیں
کیسے کہیں یہ بات اب پاگل ہوا سے ہم
ہر شخص تھا تری طرف تیری ہی بزم تھی
کس کو سناتے پھر ترے قصے جفا کے ہم
تیری کسی مراد کی خاطر مرے رقیب
گر جائیں آسمان سے ہیں وہ ستارے ہم
غزل
شیشہ صفت تھے آپ اور شیشہ صفت تھے ہم
رینو نیر