شیراز کی مے مرو کے یاقوت سنبھالے
میں کوہ دماوند سے آ پہنچا ہمالے
ہووے تو رہے شیشہ و آہن کی حکومت
کانسی کی مری تیغ ہے مٹی کے پیالے
ہر شخص بہ انداز دگر واصل شک تھا
اٹھا میں تری بزم سے ایقان سنبھالے
اب عشق نوردی ہی ٹھکانے سے لگائے
شعلہ نہ جلائے مجھے گرداب اچھالے
ہونے کی خبر بھی نہ ترا ہجر زدہ دے
بھر لیوے کبھی آہ کبھی شمع جلا لے
بوسے کا تلذذ ہو کبھی طوف کی راحت
ارمان مرا یہ دل کافر بھی نکالے
ابہام کے ریشوں سے بنا باغ تخیل
ہو جائے کبھی چشم تحیر کے حوالے
غزل
شیراز کی مے مرو کے یاقوت سنبھالے
احمد جہانگیر