شدت شوق سے افسانے تو ہو جاتے ہیں
پھر نہ جانے وہی عاشق کہاں کھو جاتے ہیں
مجھ سے ارشاد یہ ہوتا ہے کہ سمجھوں ان کو
اور پھر بھیڑ میں دنیا کی وہ کھو جاتے ہیں
درد جب ضبط کی ہر حد سے گزر جاتا ہے
خواب تنہائی کے آغوش میں سو جاتے ہیں
بس یوں ہی کہتے ہیں وہ میرے ہیں میرے ہوں گے
اور اک پل میں کسی اور کے ہو جاتے ہیں
ہم تو پابند وفا پہلے بھی تھے آج بھی ہیں
آپ ہی فاصلے لے آئے تو لو جاتے ہیں
کوئی تدبیر نہ تقدیر سے لینا دینا
بس یوں ہی فیصلے جو ہونے ہیں ہو جاتے ہیں
کچھ تو احساس محبت سے ہوئیں نم آنکھیں
کچھ تری یاد کے بادل بھی بھگو جاتے ہیں
غزل
شدت شوق سے افسانے تو ہو جاتے ہیں
'امیتا پرسو رام 'میتا