EN हिंदी
شدت اظہار مضموں سے ہے گھبرائی ہوئی | شیح شیری
shiddat-e-izhaar-e-mazmun se hai ghabrai hui

غزل

شدت اظہار مضموں سے ہے گھبرائی ہوئی

طفیل بسمل

;

شدت اظہار مضموں سے ہے گھبرائی ہوئی
تیری بے عنواں کہانی لب پہ شرمائی ہوئی

میں سراپا جرم جنت سے نکالا تو گیا
ڈرتے ڈرتے پوچھتا ہوں کس کی رسوائی ہوئی

ایک سناٹا ہے دل میں اک تصور آپ کا
اک قیامت پر قیامت دوسری آئی ہوئی

امتیاز صورت و معنی کے پردے چاک ہیں
یا ترے چہرے پہ مستی کی گھٹا چھائی ہوئی

آرزو فتنے جگائے دل میں تھی اب ہے مگر
اس قیامت کے جہاں کو نیند سی آئی ہوئی

حسن ہرجائی ہے بسملؔ عشق کی لذت گئی
عندلیب وقت ہر اک گل کی شیدائی ہوئی