EN हिंदी
شوق سے آئے برا وقت اگر آتا ہے | شیح شیری
shauq se aae bura waqt agar aata hai

غزل

شوق سے آئے برا وقت اگر آتا ہے

رسول ساقی

;

شوق سے آئے برا وقت اگر آتا ہے
ہم کو ہر حال میں جینے کا ہنر آتا ہے

غیب سے کوئی نہ دیوار نہ در آتا ہے
جب کئی در سے گزرتے ہیں تو گھر آتا ہے

آج کے دور میں کس شے کی تمنا کیجے
ہوتا کچھ اور ہے کچھ اور نظر آتا ہے

پہلے اک ہوک سی اٹھتی ہے لب ساحل پر
پھر کہیں جا کے سمندر میں بھنور آتا ہے

خود مری چیخ سنائی نہیں دیتی مجھ کو
اس طرح دل میں کوئی خوف اتر آتا ہے

ایک تو دیر تلک نیند نہیں آتی ہے
اور پھر خواب بھی تو پچھلے پہر آتا ہے

کس کی تعظیم کو اٹھتی ہیں امنگیں دل کی
ہجرۂ خاص میں یہ کون بشر آتا ہے

میرے اس خواب کی تعبیر کوئی بتلائے
نقرئی طشت میں شاہین کا پر آتا ہے

جانے کس حال میں رکھتی ہے یہ دنیا مجھ کو
جانے کس بات پہ دل درد سے بھر آتا ہے

ویسے تو کہنے کو سچ بات سبھی کہتے ہیں
اس کی پاداش میں کیوں میرا ہی سر آتا ہے